Thursday, May 14, 2020

شب قدر کی فضیلت



یقیناً ہم نے اس شب قدر میں نازل فرمایا۔ تو کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں (ہر کام) کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح (جبرائیل علیہ السلام) اترتے ہیں۔ یہ رات سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر طلوع ہونے تک رہتی ہے
(سورة القدر 1-5)

یقیناً ہم نے اسے بابرکت رات (لیلۃ القدر) میں اتارا ہے بیشک ہم ڈرانے والے ہیں. اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ (سورة الدخان 3-4)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے (یعنی گذرے ہوئے) گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
(صحيح البخاري 1901)

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے ( یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے ) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔
(صحيح البخاري 2024)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔
(صحيح البخاري 2020)

عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔ (صحيح البخاري 2017)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! اگر میں لیلۃ القدر پالوں تو کیا دعا مانگوں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’یوں کہنا: [ *اللّهم إنك عفُوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي* ] ’’اے اللہ! تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے، تو معاف کرنا پسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف فرمادے۔‘‘
(سنن ابن ماجة 3850 وصححه الألباني)

Sunday, February 16, 2020

طلب علم کی فضیلت


 وہ تو  ( صرف )  دنیاوی زندگی کے ظاہر کو ( ہی ) جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں۔ (سورة الروم 7)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ہر اس شخص سے بغض رکھتا ہے جو دنیا کا تو علم رکھتا ہے لیکن آخرت (کے علم) سے جاھل ہو۔ (صحيح الجامع 1879)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم سیکھنے سے ہے اور حلم وبردباری کوشش کرنے سے ہے، اور جو شخص خیر کی کوشش کرتا ہے اسے خیر دے دی جاتی ہے اور جو شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اسے شر سے بچالیا جاتا ہے ۔
(الطبراني في الكبير وانظر الصحيحة 342)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے“
(سنن الترمذي 2645 وصححه الألباني)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(سنن ابن ماجة 224 وصححه الألباني في صحيح الترغيب)

 سو  (اے نبی!)  آپ جان لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
 (سورة محمد 19)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے ( وہ منقطع نہیں ہوتے ) : صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔ 
(صحيح مسلم 1631)

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم ( علم والے ) اور متعلم ( علم سیکھنے والے ) کے“
(سنن الترمذي 2322)

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ عزوجل نے میری طرف وحی فرمائی کہ جو شخص طلب علم میں کوئی سفر کرتا ہے تو میں اس کے لیے راہ جنت آسان کر دیتا ہوں ، اور میں جس کی دونوں آنکھیں سلب کر لیتا ہوں تو میں اس کے بدلے اسے جنت عطا کر دیتا ہوں ، علم میں زیادت ، عبادت میں زیادت سے بہتر ہے ، اور دین کی اصل تقویٰ ہے ۔‘‘ (صحيح الجامع 1727)

قیس بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک شخص مدینہ سے ابو الدرداء رضی الله عنہ کے پاس دمشق آیا، ابوالدرداء رضی الله عنہ نے اس سے کہا: میرے بھائی! تمہیں یہاں کیا چیز لے کر آئی ہے، اس نے کہا: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں، ابو الدرداء نے کہا: کیا تم کسی اور ضرورت سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا تم تجارت کی غرض سے تو نہیں آئے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ میں تو صرف اس حدیث کی طلب و تلاش میں آیا ہوں، ابو الدرداء نے کہا: ( اچھا تو سنو ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص علم دین کی تلاش میں کسی راستہ پر چلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اسے جنت کے راستہ پر لگا دیتا ہے۔ بیشک فرشتے طالب ( علم ) کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھا دیتے ہیں، اور عالم کے لیے آسمان و زمین کی ساری مخلوقات مغفرت طلب کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سارے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کر لیا، اس نے ( علم نبوی اور وراثت نبوی سے ) وافر حصہ لیا“
(سنن الترمذي 2682 وصححه الألباني)


 یہ دعا کرتے رہا کرو کہ: میرے پروردگار! مجھے علم میں اور ترقی عطا فرما ۔ 
 (سورة طه 114)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أسألك علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا» اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔ (سنن ابن ماجة 925 وجود إسناده الألباني)


کہو کہ : کیا وہ جو جانتے ہیں ، اور جو نہیں جانتے ، سب برابر ہیں؟ ( مگر ) نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (سورة الزمر 9)

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر ( علم دین ) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے۔
(سنن ابن ماجة 227 وصححه الألباني)

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ رشک صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو ) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔ 
(صحيح البخاري 73)

ابوامامہ باہلی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔
(سنن الترمذي 2685 وحسنه الألباني لغيره)

 تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے ، اللہ ان کو درجوں میں بلند کرے گا۔
 (سورة المجادلة 11)
 
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تمہارے پاس کچھ لوگ علم حاصل کرنے آئیں گے، لہٰذا جب تم ان کو دیکھو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق انہیں «مرحبا» ( خوش آمدید ) کہو، اور انہیں علم سکھاؤ ۔ 
(سنن ابن ماجة 247 وحسنه الألباني)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو مجھ سے کوئی حدیث سنے پھر اسے یاد رکھ کر اسے دوسروں کو پہنچا دے، کیونکہ بہت سے احکام شرعیہ کا علم رکھنے والے اس علم کو اس تک پہنچا دیتے ہیں جو اس سے زیادہ ذی علم اور عقلمند ہوتے ہیں۔ اور بہت سے شریعت کا علم رکھنے والے علم تو رکھتے ہیں، لیکن فقیہہ (گہری سمجھ والے) نہیں ہوتے“
(سنن الترمذي 2656 وحسنه)


اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے ، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے ، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
(سورة العنكبوت 69)

ابوکبشہ انماری رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”میں تین باتوں پر قسم کھاتا ہوں اور میں تم لوگوں سے ایک بات بیان کر رہا ہوں جسے یاد رکھو“، ”کسی بندے کے مال میں صدقہ دینے سے کوئی کمی نہیں آتی ( یہ پہلی بات ہے ) ، اور کسی بندے پر کسی قسم کا ظلم ہو اور اس پر وہ صبر کرے تو اللہ اس کی عزت کو بڑھا دیتا ہے ( دوسری بات ہے ) ، اور اگر کوئی شخص سوال (لوگوں سے مانگنے) کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس کے لیے فقر و محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے“۔ ( یا اسی کے ہم معنی آپ نے کوئی اور کلمہ کہا ) ( یہ تیسری بات ہے ) اور تم لوگوں سے ایک اور بات بیان کر رہا ہوں اسے بھی اچھی طرح یاد رکھو: ”یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ایسے بندے کا درجہ سب درجوں سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہٰذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسی علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا ( یعنی: برے کاموں میں مال خرچ کرتا ) تو اس کی نیت کا وبال اسے ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا“۔ 
(سنن الترمذي 2325 وصححه الألباني)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر ( خوب ) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی ) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔
(صحيح البخاري 79)


قیامت کے دن اعمال کام آئیں گے۔

*اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔*
(سورة زخرف 67)

 *جس دن مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔*
 (سورة الشعراء 88)
 
 *اس دن کوئی دوست کسی دوست کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ ان کی امداد کی جائے گی ۔*
 (سورة الدخان 41)

 پس جب کہ کان بہرے کر دینے والی  (قیامت) آ جائے گی۔
 *اس دن آدمی اپنے بھائی سے۔
 اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے ۔  
 اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔  
 ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر  (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی۔*
 (سورة عبس 33-37)

 لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو *جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا* ( یاد رکھو ) اللہ کا وعدہ سچا ہے  ( دیکھو ) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز  ( شیطان )  تمہیں دھوکے میں ڈال دے ۔*
 (سورة لقمان 33)

 پس جبکہ صور پھونک دیا جائیگا *اس دن نہ تو آپس کے رشتے ہی رہیں گے ،  نہ آپس کی پوچھ گچھ* ۔  
 (سورة المؤمنون 101)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حصول علم کے لیے کوئی راستہ طے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے، *اور جس کو اس کے عمل نے پیچھے کر دیا تو اسے اس کا نسب آگے نہیں کر سکے گا ۔*
(سنن أبي داود 3643 وصححه الألباني)


ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا جب ( سورۃ الشعراء کی ) یہ آیت اللہ تعالیٰ نے اتاری «وأنذر عشيرتك الأقربين‏» اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قریش کے لوگو! یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ کہا تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو ( نیک اعمال کے بدل ) مول لے لو ( بچا لو ) *میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا* ( یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکوں گا ) عبد مناف کے بیٹو! *میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا*۔ عباس عبدالمطلب کے بیٹے! *میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا*۔ صفیہ میری پھوپھی! اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آؤں گا۔ *فاطمہ! بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے تیرے کچھ کام نہیں آؤں گا۔*
(صحيح البخاري 2753)

Friday, October 5, 2018

قبر پرستی کا رد (کچھ دلائل)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرمایا تھا: ( *تم جب بھی مانگو تو اللہ تعالی سے مانگو اور جب بھی مدد چاہو تو صرف اللہ تعالی سے مدد چاہو* )

سنن الترمذي (2516)
وصححه الألباني في صحيح الجامع

علامہ آلوسی بغدادی حنفی نے ابن حجر ہیتمی شافعی سے نقل کیا ہے:
*”مصر کے قبرستان میں جتنی بھی قبروں پر عمارتیں ہیں، حتی کہ امام شافعی کی قبر پر بعض بادشاہوں کا بنایا ہوا قبہ بھی،ان سب کے منہدم کرنے کا علماءِ کرام کے جم غفیر نے فتویٰ دیا ہے۔اگر فتنہ و فساد کا خدشہ نہ ہو، تو ہر ایک کے لیے انہیں منہدم کرنا فرض ہے۔حاکم کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا ضروری ہے،جیسا کہ صلح کے باب میں ابن رفعہ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے*۔”(روح المعاني : 226/8)

سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( *بیشک تمہارا  پروردگار  انتہائی  باحیا اور سخی ہے، ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے والے اپنے بندے کے ہاتھوں کو خالی لوٹاتے ہوئے اسی حیا آتی ہے* ) اس حدیث کو شیخ البانی  نے "صحیح ابو داود": (1320) میں صحیح کہا ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: 
”جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا۔ اس کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔ وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے امیرالمومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور سارا واقعہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔ نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا: تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور سیدنا ابو موسیٰ گئے اور اسے (ایک گمنام جگہ میں ) دفن کر دیا۔“ (مصنف ابن أبي شيبه:4/7، الرقم:33819، وسنده صحيح) 

قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ کیا *اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا نہ کرنا*، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے ۔
( ابو داؤد 2140)
صححه الألباني دون جملة القبر

عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ *جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا*، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے معاذ! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، ایسا نہ کرنا*، اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
(سنن ابن ماجة 1853)
وهو في صحيح ابن ماجة

ابوواقد لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر *مشرکین کے ایک درخت* کے پاس سے ہوا جسے *ذات انواط* کہا جاتا تھا، *اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے*، *صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے*“
(سنن الترمذي 2180)

علامه طرطوشي المتوفىٰ (451-520ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

فانظروا - رحمكم الله - أينما وجدتم سدرة أو شجرة يقصدها الناس ويعظمون من شأنها ويرجون البرء والشفاء من قبلها وينوطون بها المسامير والخرق؛ فهي ذات أنواط؛ فاقطعوها.
ترجمہ: *الله آپ پر رحم کرے۔ آپ جہاں بھی ایسی کوئی بیری یا درخت دیکھیں۔ جس کی زیارت کو لوگ آتے ہوں۔ اس کی تعظیم کرتے ہوں۔ اس سے شفایابی کی امید رکھتے ہوں۔ اور اس کے ساتھ کیل یا کپڑے لٹکاتے ہوں۔ تو وہ ذاتِ انواط ھے۔ اُسے کاٹ دیں۔*

[الحوادث والبدع: ص39]

*علامہ ابو حامد  غزالی (المتوفى 450۔505ھ) قبروں کو چھونے اور ان کو بوسہ دینے کے بارے میں فرماتے ہیں* :
إِنَّه عَادَۃُ النَّصَارٰی وَالْیَھُودِ ۔

*’’ایسا کرنا یہود و نصاریٰ کی عادت ہے۔‘‘*

[إحیاء علوم الدین : 244/1]

علامہ احمد بن محمد بن اسماعیل، *طحطاوی، حنفی* (م:1231ھ) کہتے ہیں:
وَلَا یَمَسُّ الْقَبْرَ، وَلَا یُقَبِّلُہٗ، فَإِنَّہٗ مِنْ عَادَۃِ أَہْلِ الْکِتَابِ ۔
*’’(قبروں کی زیارت کرنے والا) نہ قبر کو چھوئے اور نہ بوسہ دے، کیونکہ یہ یہود و نصاریٰ کا وطیرہ ہے۔‘‘*

(حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح : 620)

علامہ ابن الحاج المالكي رحمه الله (المتوفى:737ھ) قبرنبوی کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

فَتَرٰی مَنْ لَّا عِلْمَ عِنْدَہٗ یَطُوفُ بِالْقَبْرِ الشَّرِیفِ، کَمَا یَطُوفُ بِالْکَعْبَة الْحَرَامِ، وَیَتَمَسَّحُ بِه وَیُقَبِّلُه، وَیُلْقُونَ عَلَیْهِ مَنَادِیلَهُمْ وَثِیَابَهمْ، یَقْصِدُونَ بِه التَّبَرُّکَ، وَذٰلِکَ کُلُّه مِنَ الْبِدَعِ، لِأَنَّ التَّبَرُّکَ إِنَّمَا یَکُونُ بِالِاتِّبَاعِ لَهٗ عَلَیْه الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَمَا کَانَ سَبَبُ عِبَادَۃِ الْجَاہِلِیَّة لِلْـاَصْنَامِ؛ إِلَّا مِنْ هذَا الْبَابِ ۔

’’آپ جاہلوں کو دیکھیں گے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کا کعبہ کی طرح طواف کرتے ہیں، اور تبرک کی نیت سے اس کو چھوتے ہیں ،بوسہ دیتے ہیں، اس پر اپنے رومال اور کپڑے ڈالتے ہیں۔ یہ سارے کام بدعت ہیں، کیونکہ برکت تو صرف اور صرف آپ علیه السلام کے اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔ دور ِجاہلیت میں بتوں کی عبادت کا سبب یہی چیزیں بنی تھیں۔ ‘‘

[المدخل : 263/1]

یعنی سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیائے کرام کے جسم یا ان کی ذات کو وسیلہ بنانا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ عجمی علاقوں کے کفار اس توسل کے قائل تھے، ان کے اس فعل شنیع کو ختم کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس نبی کے جسم کو کسی گمنام جگہ میں دفن کرنے کا حکم دے دیا۔

(حافظ ابو یحییٰ نورپوری)

*قبر پرستی کا رد علامہ جلال الدین السیوطی کے قلم سے*

کتاب ’’الا بالاتباع والنھی عن الا بتداع‘‘ صفحہ ۱۳۹میں قبر پرستی کا رد کرتے ہو ئے لکھتے ہیں :
*اور اگر انسان وہاں نماز کا قصدو ارادہ کرے یا اپنی ضرورتوں اور حاجتوں میں ان مقامات کو بابرکت ، قبولیت ِ دعا کی امید رکھتے ہوئے وہاں اپنے لیے دعا مانگے تو یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی عین نا فرمانی و دشمنی ہے ۔ اس کے دین و شریعت کی مخالفت ہے اور ایک ایسے دین کی ایجاد ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اجازت نہیں دی اور نہ آپ ﷺ کی سنتوں اور آپ ﷺ کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ائمہ مسلمین نے اس کی اجازت دی ۔ یقنیاً قبروں کی طرف قبولیت کی توقع رکھتے ہوئے دعائیں مانگنے کے لیے جانا ممنوع عمل ہے اور یہ حرام کے زیادہ قریب ہے۔ صحابہ کرام ؓ آپ ﷺ کی وفات کے بعد کئی ایک بار پریشانیوں اور تنگیوں میں مبتلا ہوئے ،اُن پر قحط کا ساسماں ہوا ۔ انھیں حوادث و مصائب نے بھی گھیرا ۔ تو وہ اللہ کے نبی ﷺ کی قبر پر کیوں نہ آئے، آپ سے بارش کی درخواست کیوں نہ کی؟ آپ کی قبر پر درخواست اور فریادیں کیاں نہ کیں ؟ آپ ﷺ تو اللہ کے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ عزت وشرف والے ہیں ۔ بلکہ قحط سالی کے موقع پر سید نا عمر ؓ آپ ﷺ کے چچا سیدنا عباس ؓ کے ساتھ عید گاہ تشریف لائے اور ان سے بارش کے لیے دعا کروائی ۔نبی مکرم ﷺ کی قبر کے پاس دعا نہ کی۔*

ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( *یقینا لوگوں میں سب سے برے اور شریر وہ لوگ ہیں جنہیں زندگي کی حالت میں ہی قیامت آدبوچے گی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے قبروں کومسجدیں بنا لیا* ) اسے مسند احمد نے روایت کیا ہے دیکھیں مسند احمد ( 1 / 405 ) اوربخاری نے اسے تعلیقا روایت کیا ہے دیکھیں : صحیح بخاری کتاب الفتن باب ظہورالفتن حدیث نمبر ( 7067 )

عبد اللہ بن شرحبیل کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضي الله عنه کو دیکھا کہ وہ قبروں کو برابر کرنے کا حکم دے رہے ہیں تو ان سے کہا گیا کہ *یہ (آپکی بیٹی) ام عمرو بنت عثمان کی قبر ہے، تو انہوں نے اسے بھی برابر کرنے کا حکم دیا اور وہ قبر بھی برابر کردی گئی۔*

[ رواه ابن أبي شيبة في " المصنف "( 4 / 138 ) وأبو زرعة في " تاريخه " ( 66 / 2 ، 121 / 2 ).]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میری قبر کو عید (میلا گاہ) نہ بننے دینا (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں)۔ “ 

[ ابوداؤد، كتاب المناسك : باب زيارة القبور : 2042 ]

ابوالھياج اسدى رحمہ اللہ تعالي سے روايت ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے على بن ابى طالب رضي اللہ تعالى عنہ نے كہا:

كيا ميں تجھے اس كام كے لئے نہ بھيجوں جس كے لئے مجھے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےبھيجا تھا: كہ" تم جو مورتی بھي ديكھواسے مٹا ڈالو، اور جو قبر بھي اونچي ديكھو اسے برابر كردو.

صحيح مسلم ( 969 ).

ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ایک کلیسا  کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ کے علاقے میں دیکھا تھا، اور اس میں موجود تصاویر کا بھی ذکر کیا گیا، تو *آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: "ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت  جاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا  کر اس میں انکی تصاویر بناتےتھے ، یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں"*
بخاری: (427) مسلم: (528)

*"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بہت زیادہ قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی"*
اس حدیث کو ترمذی: (1056)، ابن ماجہ: (1576) نے روایت کیا ہے

جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی *وفات سے پانچ دن پہلے  آپ سے سنا، آپ فرما  رہے تھے*: (میں اللہ کے سامنے اظہار براءت کرتا ہوں کہ میرا تم میں سے کوئی خلیل بھی ہے، بیشک اللہ تعالی نے مجھے ایسے ہی اپنا خلیل  بنایا، جیسے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا، اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا چاہتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، *خبردار! تم سے پہلے لوگ  اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں پر مساجد بنا لیتے تھے، خبردار! تم قبروں کو مساجد مت بنانا، بیشک میں تمہیں اس سے روک رہا ہوں*)

صحیح مسلم : (532)

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں  کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ( *اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فر مائے، کہ انہوں نے  اپنے انبیائے کرام  کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا*) *عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ  انکے عمل سے اپنی امت کو خبر دار فرما رہے تھے، مزید کہتی ہیں کہ: اگر یہی خدشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی قبر مبارک کے ساتھ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک سب کے سامنے عیاں ہوتی"*
(صحيح البخاري 1330 ، صحيح مسلم 529)

شیخ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ (م : 1372-1420 ھ) فرماتے ہیں : 
”خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبر پرستوں کا توسل دو طرح کا ہے: پہلی صورت وہ ہے جس میں فوت شدہ کو مخاطب کر کے اس سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا جاتا ہے، مثلاً یہ کہا جاتا ہے: اے فلاں ولی ! میری تکلیف کو دور فرمائیے، مجھے شفا دیجیے، میری لغزش معاف کیجیے، میری حاجت پوری فرمائیے وغیرہ۔ یا اپنی حاجت روائی کے لیے اس سے اللہ کے ہاں سفارش کی درخواست کی جاتی ہے، مثلاً اے فلاں ولی ! اللہ کے دربار میں سفارش کیجیے کہ وہ میری ضرورت کو پورا کرے اور میری تکلیف کو دور فرمائے وغیرہ۔ یہ ساری باتیں اور اس طرح کے دیگر افعال لغوی اعتبار سے فوت شدگان سے توسل کے زمرے میں نہیں آتے۔ یہ ساری صورتیں تو میت سے مدد طلب کرنے اور ان سے مانگنے کی ہیں جو کہ صریح طور پر شرک ہیں، بلکہ یہ افعال شرک کی دیگر بہت سی اقسام، مثلاً علم غیب میں شرک، تصرف میں شرک، سمع میں شرک وغیرہ میں مبتلا ہونے کا ذریعہ بھی ہیں اور علمائے حنفیہ کی زبانی اس کی تحقیق ہم بیان کر چکے ہیں۔ قبوریوں کے ہاں پایا جانے والا دوسری قسم کا توسل وہ ہے جس میں فوت شدگان کو مخاطب نہیں کیا جاتا، نہ ان سے حاجت روائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، نہ ہی ان سے قضائے حاجت کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارش کرنے کا سوال کیا جاتا ہے بلکہ اس میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے اور اسی کو پکارا جاتا ہے، مثلاً آدمی کہے: اےاللہ ! میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تو فلاں کی حرمت، فلاں کے وسیلے اور فلاں کے طفیل میری مشکل حل فرما دے،میرے گناہ معاف کر دے اور میری حاجت پوری فرما دے وغیرہ۔ اس قسم کو لغوی طور پر توسل کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال باقی ہے کہ یہ شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ توسل کی یہ قسم دو وجہ سے شرعاً ناجائز ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس طرح کرنا دُعا، جو کہ عبادات کا مغز ہے، کے سلسلے میں گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ کتاب و سنت میں وسیلے کی اس صورت کا کوئی وجود نہیں، نہ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی امام نے ایسا کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح سے شرک کے دروازے کے دونوں کواڑ کھل جاتے ہیں، لہٰذا توحید کے تحفظ کے لیے اس دروازے کو بند کرنا ضروری ہے“۔ 

(جھود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية، ص:1484)

جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روایت ہے:

" رسول كريم صلى اللہ وسلم نے قبر پختہ كرنے اور اس پر بيٹھنے اور اس پر تعمير كرنے سے منع فرمايا "

صحيح مسلم شريف الجنائز حديث نمبر ( 1610 )

اور ابو داود كى روايت ميں ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں كو پختہ كرنے اور ان پر لكھنے اور انہيں روندھنے سے منع فرمايا"

سنن ابو داود الجنائز حديث نمبر ( 3226 )۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ '' *اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کو پوجنے لگیں۔ پھر فرمایا: اس قوم پر اللہ کا غضب نازل ہوا جس نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔''*
(مسند أحمد)
امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (وفات 463 ھ) راقم ہیں:

''وثن بت ہے ،خواہ سونے چاندی کی مورتی ہو یا کسی اور چیز کامجسمہ۔ اللہ کے علاوہ ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جائے ،وہ وثن ہے خواہ وہ بت ہو یا کوئی اور چیز۔عرب لوگ بتوں کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے اور ان کی عبادت کیا کرتے تھے۔ پس رسول اللہ ﷺ اپنی اُمت پر خوف زدہ تھے کہ یہ بھی (ان چیزوں میں) گذشتہ اُمتوں کےنقش قدم پر نہ چل پڑیں جب ان میں کوئی نبی فوت ہوجاتے تو وہ ان کی قبر کے گردا گرد عبادت کے لئے جم کر بیٹھ جاتے جیسا کہ بت کے ساتھ کیا جاتا ہے تو نبیﷺ نے دعا کی، اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنانا کہ جس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جائے، سجدہ کیا جائے اور عبادت بجا لائی جائے، ان لوگوں پر اللہ کا شدید غضب نازل ہوا جنہوں نے ایسا کیا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ اور ساری اُمت کو گزشتہ امتوں کے اس فعل سے ڈرا رہے تھے جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھیں اور ان کو قبلہ و مسجد بنا لیا جیسا کہ بت پرست لوگوں نے بتوں کے ساتھ کیا، وہ ان کو سجدہ کرتے، اُن کی تعظیم بجا لاتے تھے ، اور یہ شرکِ اکبر ہے، اور نبیﷺ اس کام میں موجود اللہ کی ناراضگی اور غضب کی (اپنی امت کو) خبر دیتے ہیں اور اس بات کی بھی کہ آپﷺ ان کاموں کو پسند نہیں کرتے اور آپﷺ اپنی اُمت کے بارے میں فکر مند بھی تھے کہ یہ بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی میں ان طریقوں کو نہ اپنا لیں اور آپﷺ اہل کتاب اور کفار کی مخالفت کو پسند کرتے تھے اور آپ کو اپنی اُمت پر ان کی اتباع کاخوف بھی تھا۔کیا تم لوگ آپﷺ کے اس فرمان کو نہیں دیکھتے جو عار دلانے اور ملامت کرنے کے انداز میں ہے:''تم ضرور پہلے لوگوں کےطریقوں پر چلو گے جیسا کہ جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے حتیٰ کے ان میں سے کوئی سانڈے کے بِل میں داخل ہوا تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے۔''

(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد  لابن عبد البر:5/45 )
امام ابن عبد البر القرطبی رحمہ اللہ کی وفات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی پیدائش سے دو سو سال پہلے ہی ہوگئی تھی اور شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب رحمہ اللہ کی پیدائش سے ساڑھے چھ سو سال پہلے ہوگئی تھی۔
قبر پرستی کا رد علماء شروع سے کرتے آئے ہیں۔

*سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو چھونا مکروہ سمجھتے تھے۔*
أن ابن عمر كان يكره مس قبر النبى صلى الله عليه وسلم [جزء محمد بن عاصم الثقفي الاصبهاني : 27 و سنده صحيح، أبو أسامة برئي من التدليس]

فائدہ : ابن قدامہ الحنبلی رحمہ اللہ (وفات 620؁ھ) نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
وافراطاً فى تعظيم القبور أشبه تعظيم الأصنام..…
” *اور قبروں کی تعظیم میں یہ افراط (زیادتی) ہے، یہ بتوں کی تعظیم سے مشابہ ہے۔“*

 [المغنی 193/2 مسئلہ : 1594]

*ذبیحہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے*
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ [6-الأنعام:162، 163]
’’ کہہ دیجئے ! بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے بات ماننے والا ہوں۔“

ایک اور مقام پر فرمایا :
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ [108-الکوثر:2]
’’ اپنے رب کی خاطر نماز پڑھ اور قربانی کر۔“

ایک اور جگہ فرمایا :
لَنْ يَنَالَ اللَّـهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ [22-الحج:37]
’’ اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا لیکن اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔“

*ان واضح آیات سے پتا چلا کہ ہر قسم کی عبادت، قربانی، جانوروں کے ذبیحے اور تقویٰ اللہ کے لیے ہونا چاہیے، اس میں کسی کو شریک اور حصہ دار نہیں بنانا چاہیے۔ جو شخص کسی اور ہستی کے لیے جانور ذبح کرتا ہے اس پر نبی آخر الزمان صادق و مصدوق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔*

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے صحیفے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے :
لعن الله من ذبح لغير الله، ولعن الله من سرق منار الأرض ولعن الله من لعن والديه، ولعن الله من آوى محدثا . 
’’ *اللہ کی لعنت ہو اس آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا* اور اس پر بھی لعنت ہو جس نے زمین کی حدود و علامات کو چرایا اور اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے اپنے والدین پر لعنت کی اور اس پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی بدعتی کو جگہ دی۔“ 
[مسند احمد 954، نسائي، كتاب الضحايا : باب من ذبح لغيرالله عزوجل 4427]

*قبروں کے پاس ذبیحہ!*
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا عقر فى الاسلام . 
’’ *اسلام میں قبروں کے نزدیک ذبیحہ نہیں ہے*۔“ [مسنداحمد 3/ 197، بيهقي 57/3، عبدالرزاق 269، شرح السنة 461/5 جمع الجوامع 272/8]

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے عقر کی تشریح میں فرمایا ہے :
كانوا يعقرون عندالقبر بقرة او شاة . 
*’’ مشرکین قبروں کے پاس گائے یا بکری ذبح کیا کرتے تھے۔“*

امام خطابی رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے :
’’ *اہل جاہلیت سخی آدمی کی قبر پر اونٹ ذبح کرتے تھے* اور کہتے تھے کہ ہم اس کی سخاوت کا بدلا دے رہے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنی زندگی میں اونٹ ذبح کر کے مہمانوں کو کھلاتا تھا، ہم اس کی قبر کے پاس ذبح کر رہے تاکہ درندے اور پرندے کھائیں اور جس طرح اس کی زندگی میں لنگر جاری رہتا تھا مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔“ [معالم السنن : 1/ 734]

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘قَاتَلَ اللّٰہُ یَہُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ’ .
*”اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کوتباہ و برباد کرے،انہوں نے اپنے انبیاءِ کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔”(صحیح البخاري : 437، صحیح مسلم : 530)*

صحیح مسلم (530) کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
‘لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُودَ وَالنَّصَارٰی، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ’ .

*”اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو اپنی رحمت سے دور کرے،جنہوں نے اپنے انبیاء ِ کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”*

*دنیا میں شرک اولیاء و صلحا کی محبت وتعظیم میں غلو کے باعث پھیلا*۔ اس حقیقت کو مشہور مفسر علامہ فخر االدین رازی (وفات: 606ھ) نے یوں آشکارا کیا ہے۔

اِنہم وضعو ہذہ الأصنام والأوثان علی صور أنبیائہم و أکابرہم و زعمو انّہم متٰی اشتغلو بعنادۃ ہذہ التماثیل فاِنّ أولئک الأکابر تکون شفائ لہم عند اللہ تعالیٰ، و نظیرہ فی ہذا الزمان اشتغال کثیر من الخلق یتعظّم قبور الأکابر علی اعتقاد اٌنّہم اِذا عظّمو قبورہم فاِنّہم یکونون شفعاء لھم عند اللہ ۔

‘‘ مشرکین نے اپنے انبیائے کرام اور اکابر کی شکل ، صورت پر بت اور مُورتیاں بنا لی تھیں۔ ان کا ا اعتقاد تھا کہ جب وہ ان مورتیوں کی عبادت کرتے ہیں تو یہ اکابر اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی سفارش کرتے ہیں ۔ *اس دور میں اس شرک کی صورت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے اکابر کی قبروں کی تعظیم میں مصروف ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اکابر کی قبروں کی تعظیم کرنے کی وجہ سے وہ اکابر اللہ کے ہاں ان کے سفارشی بنیں گے*۔ ’’

(تفسیر الرازی: ۲۲۷/۱۷ )

علامہ فخر الدین رازی کی وفات شیخ الاسلام ابن تیمیہ (ولادت:661 ھ)، ابن قیم (ولادت 691 ھ) اور محمد بن عبد الوھاب (ولادت: 1115 ھ) رحمہم اللہ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہوگئی تھی۔

*غیر اللہ کے لیے نذر و نیاز اور فقہ حنفی*
والنذر للمخلوق لا يجوز، لأنه عبادة، والعبادة لا تكون للمخلوق .
’’ *مخلوق کے لیے نذر و نیاز جائز نہیں، کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہو سکتی۔* “ [فتاوٰي شامي : 439/2 ]

*مجدد الف ثانی اور قبروں پر ذبیحہ/ نذر ونیاز*
جناب احمد سرہندی، الملقب بہ ’’ مجدد الف ثانی “ (م : 1034ھ) فرماتے ہیں :
’’ *بزرگوں کے لیے جو نذریں حیوانات کی مانتے ہیں اور ان کو قبروں پر لے جا کر ذبح کرتے ہیں، فقہی روایات نے اس عمل کو شرک میں داخل کیا ہے۔ “*

[مكتوبات امام رباني، ص : 73، مكتوب نمبر 41، دفتر : 3 ]

مجدد الف ثانی کی وفات شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب (ولادت: 1115 ھ) رحمہ اللہ کی پیدائش سے پہلے ہی ہوگئی تھی۔

مشہور مفسر علامہ قرطبی رحمہ اللہ (600-671ھ) فرماتے ہیں : 
” *قبر پرستی اصحاب قبور کی عبادت تک پہنچا دیتی ہے جیسا کہ بت پرستی کا سبب بھی یہی تھا۔*“ 

( تفسیر القرطبی: 380/10)

امام قرطبی رحمہ اللہ شیخ الاسلام محمد بن عبد الوھاب اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے پہلے کے ہیں۔

امام ابن ابی العزا الحنفی رحمہ اللہ ((731-792ھ)) لکھتے ہیں :

”مشرکین مکہ کا بتوں کے بارے میں یہ اعتقاد نہیں تھا کہ وہ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے شریک ہیں، بلکہ ان کا حال ہندوستان، ترکی اور بربر کی مشرک قوموں کی طرح ہی تھا۔ کبھی ان کا اعتقاد یہ بن جاتا ہے کہ یہ نیک لوگوں اور انبیائے کرام کی مورتیاں ہیں اور ان کو اپنا سفارشی بناتے ہیں اور اللہ کی طرف ان کو وسیلہ بناتے ہیں۔ یہی عرب لوگوں کا اصل شرک تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ ”اور انہوں نے کہا : تم کبھی بھی اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا نہ ودّ، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو چھوڑنا“ “ 

(شرح العقيده الطحاوية : ص ۸۱)

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
‘‘ کیا روئے زمین پر کسی انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ *سلف صالحین میں سے کسی ایک سے کوئی ایک صحیح یا حسن یا ضعیف یا منقطع روایت بیان کرے کہ جب ان کو کوئی ضرورت ہوتی تھی تو وہ قبروں کی طرف جاتے اور ان کے پاس دُعا کرتے اور ان سے لپٹتے ہوں ۔ ان سے قبروں کے پاس نماز پڑھنے ، اہل قبور کے طفیل اللہ سے دُعا مانگنے یا اہل قبور سے اپنی حاجت روائی کی التجا کرنے کا ثبوت تو دُور کی بات ہے ۔ یہ لوگ ہمیں کوئی ایک ایسی روایت یا اس بارے میں کوئی لفظ دکھا دیں*۔ ’’

(اغاثۃ اللھفان فی مصاید الشیطان لابن القیم: ۳۱۸/۱ )

شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ (وفات: 728 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
*‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کے صحابہ کی قبروں کی بڑی تعداد شہروں میں تھی ۔ ان قبروں کے پاس تابعین اور ان کے بعد والے ائمہ دین رہتے تھے لیکن انہوں نے کبھی کسی صحابی کی قبر کے پاس آ کر مدد طلب نہیں کی اور نہ قبروں کے پاس اللہ سے بارش طلب کی نہ اس کے طفیل ایسا کیا، نہ ان قبروں کے پاس مدد طلب کی نہ ان کے طفیل ایسا کیا۔ یہ بات تو معلوم ہے کہ ایسے واقعات اگر رونما ہوں تو ان کو نقل کرنے کے اسباب و وسائل بہت زیادہ ہوتے ہیں بلکہ اس سے کم درجے کے واقعات بھی نقل ہوتے رہتے ہیں ۔ جو شخص آثا رِِ سلف کی کتب کا غور سے مطالعہ کر کے سلف صالحین کے حالات کو پہچان لے گا اسے قطعی طور پر یقین ہو جائے گا کہ وہ لوگ قبروں کے پاس نہ مدد طلب کرتے تھے نہ کبھی ( اپنے لئے) دُعا کرنے کے لئے وہاں جاتے تھے بلکہ اس دور کے جو جاہل لوگ ایسا کرتے تھے اسلاف انہیں اس سے منع کرتے تھے۔’’*

(اقتضاء الصراط المستقیم: ۶۸۱/۲ )

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (700-774 ھ) اکابر پرستی کو شرک کا موجب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

وأصل عبادۃ الأصنام من المغالاۃ فی القبور و أصحابہا، وقد أمر النبی صلی اللہ علیہ و سلّم بتسویۃ القبور و طمسہا، و المغالاۃ فی البشر حرام۔ 

‘‘ *بتوں کی عبادت کا اصل سبب قبور اور اصحاب قبور کے بارے میں غلو کا شکار ہونا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم نے قبروں کو برابر کرنے اور (اونچی قبروں ) کو مٹانے کا حکم دیا ہے ۔ بشر کے بارے میں غلو کرنا حرام ہے ۔*

 ’’(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ۲۸۶/۱۰ )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومن المحرمات: العكوف عند القبر، والمجاورة عنده، وسدانته، وتعليق الستور عليه، كانه بيت الله الكعبة .
*’’ قبر پر اعتکاف، اس کی مجاوری، اس کی خدمت، اس پر خانہ کعبہ بیت اللہ کی طرح چادریں چڑھانا، سب حرام کام ہیں۔ “* 

[اقتضاء الصراط المستقيم : 267]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ (وفات:728 ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فأما العكوف والمجاورة عند شجرة أو حجر، تمثال أو غير تمثال، أو العكوف والمجاورة عند قبر نبي، أو غير نبي، أو مقام نبي أو غير نبي، فليس هذا من دين المسلمين. بل هو من جنس دين المشركين .
*’’ کسی شجر و حجر یا مورتی وغیرہ کے پاس اعتکاف کرنا اور کسی نبی یا غیر نبی کی قبر یا نبی یا غیر نبی کے مقام پر مجاور بن کر بیٹھنا، ان کاموں کا مسلمانوں کے دین سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مشرکین کے دین سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ “* 

[اقتضاء الصراط المستقيم : ص 365]

شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن القیم (وفات: 751 ھ) فرماتے ہیں :
فمنها: تعظيمها الموقع في الافتتان بها، ومنها اتخاذها عيدا، ومنها السفر إليها، ومنها مشابهة عباد الأصنام بما يفعل عندها من العكوف عليها، والمجاورة عندها، وتعليق الستور عليها وسدانتها. وعبادها يرجحون المجاورة عندها علي المجاورة عند المسجد الحرا، ويرون سدانتها افضل من خدمة المساجد . 
’’ *قبر پرستی کی خرابیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی ایسی تعظیم کی جاتی ہے جو انسان کو شرک و بدعت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ ایسے ہی ان کو میلہ گاہ بنانا، ان کی طرف سفر کرنا، انہی میں سے یہ بھی ہے کہ قبروں کے پاس وہ کام کیے جاتے ہیں جو بت پرستی سے مشابہ ہیں، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، ان پر پردے لٹکانا، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست لوگ قبروں کی مجاور ی کو بیت اللہ کی مجاور ی پر بھی ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے بھی افضل ہے۔ “*

[اغاثة اللهفان : 197/1]

#توحید_سب_سے_پہلے
{ اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالی فرماۓ گا کہ *اے عیسی بن مریم ! کیا تو نے ان لوگوں کو یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو بھی اللہ تعالی کے علاوہ معبود بنا لو؟* عیسی علیہ السلام عرض کریں گے اے اللہ تو ان عیوب سے مبرا اور پاک ہے ، مجھے یہ بات کسی طرح بھی زیبا نہیں دیتی کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کوئ حق ہی حاصل نہیں ، اگر میں نے یہ بات کہی ہوگی تو تجھے اس کا علم ہوگا ، تو تو میرے دل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور میں تیرے نفس میں جو کچھ ہےاس کو نہیں جانتا بے شک تو ہی تمام غیبوں کو جاننے والا ہے ۔

میں نے تو ان سے اور کچھ نہیں کہا مگر صرف وہی بات جس کاتونے حکم دیا تھا کہ انہیں کہہ دو کہ تم *اللہ تعالی کی بندگی اختیار کرو ، جوکہ میرا اورتمہارا بھی رب ہے* ، میں تو ان پر اس وقت تک گواہ رہا جب تک میں ان میں تھا ، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر مطلع رہا ، اور تو ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے۔}

سورة المائدۃ / 116 – 118

*امام ابو حنیفہ سے روایت کیا جاتا  ہے کہ امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کر کے یہ کہتے سنا کہ اے قبر والو! تم کو کچھ خبر بھی ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آرہا ہوں اور تم سے میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے حق میں دعا کر دو - بتاؤ! تمہیں میرے حال کی کچھ خبر بھی ہے یا تم بلکل غافل ہو - ابو حنیفہ نے اس کا یہ قول سن کر اس سے دریافت کیا کہ کیا قبر والوں نے کچھ جواب دیا؟ وہ بولا نہیں دیا - امام ابو حنیفہ نے یہ سن کر کہا کہ تجھ پر پھٹکار - تیرے دونوں ہاتھ گرد آلود ہو جائیں تو ایسے جسموں سے کلام کرتا ہے جو نہ جواب ہی دے سکتے ہیں اور وہ نہ کسی چیز کے مالک ہی ہیں اور نہ آواز ہی سن سکتے ہیں - پھر امام ابو حنیفہ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ "اے نبی صلی الله علیہ وسلم تم ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں کچھ نہیں سنا سکتے -*
*سورة الفاطر:٢٢".*

(شفاء الصدور للنيلوي ص ٤٤،احكام الموتي والقبور ص ٩٢،غرائب فی تحقیق المذاہب و تفہیم المسائل ، صفحہ ٩١ صفحہ ١٧٢ ، محمد بشیر الدین قنوجی بحوالة جهود العلماء الحنفية ص ٨٦٨)

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو بت نوحٰ علیہ السلام کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ود دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ سواع بنی ہذیل کا۔ یغوث بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے یعوق بنی ہمدان کا بت تھا۔ نسر حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے۔ *یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں* چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔
(صحيح البخاري 4920)

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے:

" بنى آدم كے كفر كا سبب صالحين اور نيك لوگوں كے متعلق غلو كرنے كے متعلق وارد شدہ احاديث "

وہ كہتے ہيں صحيح بخارى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ اللہ تعالى كے فرمان:

﴿ اور انہوں نےكہا كہ ہرگز اپنے معبودوں كو نہ چھوڑنا، اور نہ ود اور سواع اور يغوث اور يعوق اور نسر كو چھوڑنا ﴾نوح ( 23 ).

كى تفسير ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا:

" يہ نوح عليہ السلام كى قوم كے نيك و صالح آدميوں كے نام ہيں، اور جب يہ لوگ فوت ہو گئے تو شيطان نے ان كى قوم كے دلوں ميں ڈالا كہ وہ ان كى تصاوير اپنى بيٹھنى والى جگہوں ميں لگائيں جہاں ان كے بڑے لوگ بيٹھتے تھے، اور انہوں نے ان كو نام بھى انہى كے ديں، تو انہوں نے ايسا ہى كيا ليكن ان كى عبادت نہيں كى جاتى تھى، ليكن جب يہ لوگ فوت ہو گئے اور علم ختم ہو گيا تو ان كى عبادت كى جانے لگى "

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كئى ايك سلف رحمہم اللہ نے كہا ہے:

جب يہ لوگ مر گئے تو وہ ان كى قبروں پر اعتكاف كرنے لگے پھر انہوں نے ان كى تصاوير بنا ليں، اور جب زيادہ مدت بيت گئى تو ان كى عبادت كى جانے لگى "

ديكھيں: فتح المجيد شرح كتاب التوحيد تاليف عبد الرحمن بن حسن صفحہ نمبر ( 219 ).

شيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ((661-728ھ)) فرماتے ہیں :

” یہ بدعت پر مبنی اقوال بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو قول سب سے بڑھ کر شریعت سے دور ہے وہ یہ ہے کہ میت سے کسی ضروری چیز کا مطالبہ کیا جائے یا اس سے اس بارے میں مدد طلب کی جائے۔ بہت سے لوگ بہت سے مردوں سے ایسا کرتے ہیں۔ یہ کام بتوں کی عبادت ہی کی قسم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیاطین میت یا غائب شخص کی شکل میں ان لوگوں کے پاس بھی آتے ہیں جیسا کہ بت پرستوں کے پاس آیا کرتے تھے۔ بلکہ بتوں کی عبادت کی بنیاد قبروں سے ہی ہوئی تھی جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے فرمایا ہے۔ بسا اوقات کوئی قبر پرست دیکھتا ہے کہ قبر پھٹی ہے اور مردے نے اس سے نکل کر اس سے معانقہ یا مصافحہ یا کلام کی ہے۔ درحقیقت یہ شیطان ہوتا ہے جو اس میت کی شکل میں آیا ہوتا ہے تاکہ اس شخص کو گمراہ کرے۔ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے۔ رہا میت یا قبر کو سجدہ کرنا یا اس کو بوسہ دینا تو وہ اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ دوسرے درجے میں یہ بات آتی ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے یا یہ مسجد یا گھر میں دعا کرنے سے افضل ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ قبر کی زیارت کے لیے جاتا ہے یا اس کے پاس نماز کا اہتمام کرتا ہے یا اس سے اپنی ضروریات طلب کرتا ہے۔ یہ بھی بدعت پر مبنی منکرات میں سے ہیں۔ اس پر مسلمانوں کے ائمہ کا اتفاق ہے کہ یہ کام حرام ہیں۔ مجھے اس بارے میں ائمہ دین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ملا۔ تیسرے درجے میں یہ بات آتی ہے کہ صاحب قبر سے کہا جائے کہ وہ اللہ سے کوئی چیز مانگ کر دے۔ یہ کام ائمہ مسلمین کے نزدیک بالاتفاق بدعت ہے۔ “ 

( تلخيص كتاب الاسغاثة لابن تيمية : 145/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ”بعض مشرک ایسے ہوتے ہیں جو کسی ایسے بزرگ کی قبر پر آتے ہیں جس کے ذریعے وہ شرک کرتے اور جس سے وہ مدد طلب کرتے ہیں تو ان کے پاس فضا سے کوئی کھانا یا خرچ یا اسلحہ وغیرہ جس کی انہیں طلب ہوتی ہے، آ جاتا ہے۔ وہ اسے اس بزرگ کی کرامت سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ بتوں کی پرستش کا بڑا سبب یہی رہا ہے۔ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی : ﴿وَاجْنُبْنِى وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ﴾ ”اے اللہ! مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں سے کی پوجا سے بچا لینا“ نیز عرض کی : ﴿رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ﴾ ”اے میرے رب! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے“۔ (إبراهيم: 35-36) اسی طرح کی بات سیدنا نوح علیہ السلام نے بھی کی تھی۔ اب یہ بات تو معلوم ہے کہ پتھر لوگوں کو گمراہ نہیں کر سکتا، ہاں کسی ایسے سبب سے یہ کام ہو سکتا ہے جو ان کی گمراہی کا باعث بنا ہو۔ کسی بت پرست کا یہ اعتقاد نہیں ہو سکتا کہ بتوں نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔ بلکہ بت پرست تو بتوں کو کئی اسباب سے سفارشی اور وسیلہ بناتے تھے۔ بعض مشرکین نے انبیائے کرام اور نیک اولیاء اللہ کی صورتوں پر بت بنائے ہوئے تھے۔ بعض نے ستاروں، سورج اور ستاروں کی مورتیاں بنا لی تھیں۔ بعض نے یہ مورتیاں جنوں کے لئے اور بعض نے فرشتوں کے لیے بنائی تھیں۔ ان بت پرستوں کا مقصد صرف فرشتوں، انبیائے کرام علیہم السلام، نیک بزرگوں یا سورج اور چاند کی عبادت کرنا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں یہ لوگ شیاطین کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ شیاطین ہی انسانوں سے بتوں کی عبادت چاہتے ہیں اور ان کے لیے بسا اوقات ایسی چیزیں ظاہر کرتے ہیں جو ان کو شرک کی طرف بلاتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلائِكَةِ أَهَؤُلاء إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ﴾ ﴿قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ﴾ (سبأ:40-41) ”اور اس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو جمع کرے گا، پھر فرشتوں سے فرمائے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے ؟ وہ جواب دیں گے : اللہ تو پاک ہے۔ ان کے خلاف تو ہی ہمارا ولی ہے۔ یہ لوگ تو جنوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان میں سے اکثر انہی پر ایمان لاتے تھے۔“ جب عبادت کرنے والا شیاطین کی عبادت کو جائز نہ سمجھتا ہو تو یہ شیاطین اس کو یہ وہم دیتے ہیں کہ وہ تو صرف ان انبیائے کرام، نیک لوگوں اور فرشتوں وغیرہ کو پکار رہا ہے جن کے بارے میں عبادت گزار کو حسن ظن ہوتا ہے۔ اور اگر عبادت گزار جنوں وغیرہ کی عبادت کو حرام نہ سمجھتا ہو تو اسے بتا دیتے ہیں کہ وہ جن ہی ہیں۔“ 

(مجموع الفتاوى لا بن تيمية الحرانی : 360/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمه الله (المتوفى 661۔728ھ) فرماتے ہیں :

وَأَمَّا التَّمَسُّحُ بِالْقَبْرِ أَوِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہٗ، أَوْ قَصْدُہٗ لِأَجْلِ الدُّعَائِ عِنْدَہٗ، مُعْتَقِدًا أَنَّ الدُّعَائَ هُنَاکَ أَفْضَلُ مِنَ الدُّعَائِ فِي غَیْرِہٖ، أَوِ النَّذْرُ لَه وَنَحْوُ ذٰلِکَ، فَلَیْسَ هٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ هوَ مِمَّا اُحْدِثَ مِنَ الْبِدَعِ الْقَبِیحَةِ الَّتِي هيَ مِنْ شُعَبِ الشِّرْکِ، وَاللّٰه أَعْلَمُ وَأَحْکَمُ 

*’’قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا، اس کے پاس نماز پڑھنا، دُعا مانگنے کے لیے قبر کے پاس جانا، یہ اعتقاد رکھنا کہ وہاں دُعا کرنا عام جگہوں پر دُعا کرنے سے افضل ہے اور قبر پر نذر و نیاز کا اہتمام کرنا وغیرہ ایسے کام ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام تو ان قبیح بدعات میں سے ہیں، جو شرک کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھتی ہیں۔ والله اعلم واحکم۔‘‘*

[مجموع الفتاوٰی لابن تيمية :321/24]

امام نووی رحمه الله (المتوفى 631۔676ھ) نبی اکرم صلی الله علیه وسلم کی قبر مبارک کو چومنے اور اس پر ماتھا وغیرہ ٹیکنے کے بارے میں فرماتے ہیں :

لاَ یَجُوزُ أَنْ یُّطَافَ بِقَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَیُکْرَہُ إِلْصَاقُ الْبَطْنِ وَالظَّهرِ بِجِدَارِ الْقَبْرِ، قَالَه الْحَلِیمیُّ وَغَیْرُہٗ، وَیُکْرَہُ مَسْحُه بِالْیَدِ وَتَقْبِیلُهٗ، بَلِ الْـاَدَبُ أَنْ یَّبْعُدَ مِنْه کَمَا یَبْعُدُ مِنْه لَوْ حَضَرَ فِي حَیَاتِهٖ صَلَّی اللّٰه عَلَیْه وَسَلَّمَ، هٰذَا هُوَ الصَّوَابُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَه الْعُلَمَائُ وَأَطْبَقُوا عَلَیْه، وَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یَغْتَرَّ بِکَثِیرٍ مِّنَ الْعَوَامِّ فِي مُخَالَفَتِهِمْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ الِاقْتِدَائَ وَالْعَمَلَ؛ إِنَّمَا یَکُونُ بِأَقْوَالِ الْعُلمائِ، وَلاَ یُلْتَفَتُ إِلٰی مُحْدَثَاتِ الْعَوَّامِ وَجَهَالَاتِهِمْ، وَلَقَدْ أَحْسَنَ السَّیِّدُ الْجَلِیلُ أَبُو عَلِيٍّ الْفُضَیْلُ بْنُ عِیَاضٍ رَّحِمَهُ اللّٰه تَعَالٰی فِي قَوْله مَا مَعْنَاہُ : اِتَّبِعْ طُرُقَ الْهدٰی وَلاَ یَضُرُّکَ قِلَّة السَّالِکِینَ، وَإِیَّاکَ وَطُرُقَ الضَّلاَلَة، وَلاَ تَغْتَرَّ بِکَثْرَۃِ الْهَالِکِینَ، وَمَنْ خَطَرَ بِبَالِه أَنَّ الْمَسْحَ بِالْیَدِ وَنَحْوِہٖ أَبْلَغُ فِي الْبَرَکَةِ، فَهوَ مِنْ جَہَالَتِه وَغَفْلَتِهٖ، لِأَنَّ الْبَرَکَةَ إِنَّمَا هيَ فِیمَا وَافَقَ الشَّرْعَ وَأَقْوَالَ الْعُلَمَائِ، وَکَیْفَ یُبْتَغَی الْفَضْلُ فِي مُخَالَفَة الصَّوَابِ ؟

*’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا طواف کرنا جائز نہیں۔اسی طرح قبر مبارک کی دیوار سے اپنا پیٹ اور اپنی پشت چمٹانا بھی مکروہ ہے،علامہ حلیمی وغیرہ نے یہ بات فرمائی ہے۔ قبر کو (تبرک کی نیت سے) ہاتھ لگانا اور اسے بوسہ دینا بھی مکروہ عمل ہے۔قبر مبارک کا اصل ادب تو یہ ہے کہ اس سے دور رہا جائے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِمبارکہ میں آپ کے پاس حاضر ہونے والے کے لیے ادب دور رہنا ہی تھا۔ یہی بات درست ہے اور علماء ِ کرام نے اسی بات کی صراحت کی ہے اور اس پر اتفاق بھی کیا ہے۔کوئی مسلمان اس بات سے دھوکا نہ کھا جائے کہ عام لوگ ان ہدایات کے برعکس عمل کرتے ہیں،کیونکہ اقتدا تو علمائِ کرام کے (اتفاقی) اقوال کی ہوتی ہے ، نہ کہ عوام کی بدعات اور جہالتوں کی۔ سید جلیل، ابوعلی فضیل بن عیاض رحمه الله نے کیا خوب فرمایا ہے: راہِ ہدایت کی پیروی کرو ، اس راہ پر چلنے والوں کی قلت نقصان دہ نہیں۔گمراہیوں سے بچواور گمراہوں کی کثرت ِافراد سے دھوکا نہ کھاؤ۔جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ قبرمبارک کو ہاتھ لگانے اور اس طرح کے دوسرے بدعی کاموں سے زیادہ برکت حاصل ہوتی ہے، وہ اپنی جہالت اور کم علمی کی بنا پر ایسا سوچتا ہے،کیونکہ برکت تو شریعت کی موافقت اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں ملتی ہے۔خلاف ِشریعت کاموں میں برکت کا حصول کیسے ممکن ہے؟۔‘‘*
[الإیضاح في مناسک الحجّ والعمرۃ، ص : 456]

سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ *نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی:*
‘وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ’ .

*”جان لو! بلاشبہ سب سے برے لوگ وہ ہیں،جنہوں نے اپنے انبیاء ِکرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”*
(مسند الإمام أحمد : 196/1، وسندہ، حسنٌ)

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*” اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا، اس قوم پراللہ کی لعنت ہو،جس نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا* ۔”(مسند الحمیدي : 1025، وسندہ، حسنٌ)

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے *علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ* لکھتے ہیں:

*”بت پرستی میں سب سے بڑا فتنہ قبر پرستوں کا ہے اور یہی بت پرستی کی بنیاد بنا، جیسا کہ سلف صالحین میں سے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے فرمایا ہے۔ شیطان ایک ایسے آدمی کی قبر ان کے سامنے کرتا ہے، جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں، پھر اُسے عبادت خانہ بنا دیتا ہے،بعد ازاں شیطان اپنے دوستوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو لوگ ان کی عبادت کرنے، ان کی قبر کو میلہ ،عرس گاہ اور عبادت خانہ بنانے سے روکتے ہیں،وہ ان کی گستاخی اور حق تلفی کرتے ہیں۔ اس پر جاہل لوگ ایسے (حق گو) لوگوں کو قتل کرنے، انہیں پریشان کرنے اور ان کو کافر قرار دینے کے درپے ہو جاتے ہیں،حالانکہ ان کا جرم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا حکم دیتے ہیں،جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور وہ اس بات سے منع کرتے ہیں،جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔”*
(زیارۃ القبور، ص : 39)

علامہ،ابن الحاج رحمہ اللہ (م : 737ھ)لکھتے ہیں :

فَہٰذَا إِجْمَاعٌ مِّنْ ہٰؤُلَاءِ الْعُلَمَاءِ الْمُتَأَخِّرِینَ، فَکَیْفَ یَجُوزُ الْبِنَاءُ فِیہَا؟ فَعَلٰی ہَذَا؛ فَکُلُّ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ، فَقَدْ خَالَفَہُمْ .
*”یہ متاخرین علما کی طرف سے پختہ اور بلند قبروں کو گرانے پر اجماع ہے۔ اس صورت میں قبروں پر قبے وغیرہ بنانا کیسے جائز ہو گا؟ اس لیے جو بھی ایسا کرے گا، وہ ان اہل علم کا مخالف ہو گا۔”*

(المدخل : 182/1، وفي نسخۃ : 253/1)

مشہور مفسر،علامہ قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ)سورہ  کہف کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فَاتِّخَاذُ الْمَسَاجِدِ عَلَی الْقُبُورِ، وَالصَّلَاۃُ فِیہَا، وَالْبِنَاءُ عَلَیْہَا، إِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ، مِمَّا تَضَمَّنَتْہُ السُّنَّۃُ مِنَ النَّہْيِ عَنْہُ؛ مَمْنُوعٌ لَّا یَجُوزُ .

*”قبروں پر مساجد، ان میں نماز، ان پر عمارت بنانا اور دیگر وہ امور جن سے سنت نے منع فرمایا ہے،وہ ممنوع اور حرام ہیں۔”*

(تفسیر القرطبي : 379/1)

*حافظ نووی رحمہ اللہ* (وفات:676ھ) سے ایک سوال ہوا، اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
مَسْألَۃٌ : مَقْبَرَۃٌ مُّسَبَّلَۃٌ لِّلْمُسْلِمِیْنَ، بَنٰی إِنْسَانٌ فِیْہَا مَسْجِدًا، وَجَعَلَ فِیْہَا مِحْرَابًا، ہَلْ یَجُوْزُ ذٰلِکَ؟ وَہَلْ یَجِبُ ہَدْمُہ،؟
اَلْجَوَابُ : لَا یَجُوْزُ لَہ، ذٰلِکَ، وَیَجِبُ ہَدْمُہ، .
*”سوال: اگر کوئی شخص مسلمانوں کے لیے وقف شدہ عام قبرستان میں مسجد اور محراب بناتا ہے ،تو کیا یہ جائز ہے؟نیز کیا اسے گرا دینا فرض ہے؟*
*جواب:ایسا کرنا جائز نہیں، نیز اسے گرا دینا فرض ہے۔* ”(فتاوی النووي، ص : 65)

مزید لکھتے ہیں:
قَالَ الشَّافِعِيُّ فِي الْـأُمّ : وَرَأَیْتُ الْـأَئِمَّۃَ بِمَکَّۃَ یَأْمُرُونَ بِہَدْمِ مَا یُبْنٰی، وَیُؤَیِّدُ الْہَدْمَ قَوْلُہ، : ‘وَلَا قَبْرًا مُّشْرِفًا؛ إِلَّا سَوَّیْتَہ،’ .
*”امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں کہا ہے:میں نے مکہ مکرمہ میں ائمہ کرام کو دیکھا کہ وہ(قبروں پر بنائی گئی عمارات وغیرہ کو)منہدم کرنے کا حکم دیتے تھے،نیز انہدام کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ ہر اونچی قبر کو برابر کر دو۔”*
(شرح صحیح مسلم : 27/7)

*حافظ سیوطی* لکھتے ہیں:
فَأَمَّا بِنَاءُ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَإِشْعَالُ الْقَنَادِیْلِ وَالشُّمُوْعِ أَوِ السُّرُجِ عِنْدَہَا؛ فَقَدْ لُعِنَ فَاعِلُہ،۔۔۔، وَصَرَّحَ عَامَّۃُ عُلَمَاءِ الطَّوائِفِ بِالنَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ مُتَابَعَۃً لِّلاْئَحَادِیْثِ الْوَارِدَۃِ فِي النَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ، وَلاَ رَیْبَ فِي الْقَطْعِ بِتَحْرِیْمِہٖ .
*”قبروں پر مساجد بنانے، وہاں لال ٹینیںو شمعیں جلانے والے پر لعنت کی گئی ہے۔۔۔ مختلف مکاتب ِفکر کے اکثر علماءِ کرام نے اس کی ممانعت پر مبنی احادیث کی پیروی میں واضح طور پر اس سے منع کیا ہے۔اس کام کو قطعی طور پر حرام کہنے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔”*
(الأمر بالاتّباع : 60،59)

سیّدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘لَا تُصَلُّوا إِلَی الْقُبُورِ، وَلَا تَجْلِسُوا عَلَیْہَا’ .
*”قبروں کی طرف منہ کر کے نمازنہ پڑھو، نہ ہی ان کے اوپر بیٹھو۔”*
(صحیح مسلم : 972)

 ملا علی قاری حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
أَيْ مُسْتَقْبِلِینَ (إِلَیْہَا)، لِمَا فِیہِ مِنَ التَّعْظِیمِ الْبَالِغِ، لِأَنَّہ، مِنْ مَّرْتَبَۃِ الْمَعْبُودِ، فَجَمَعَ بَیْنَ الِاسْتِحْقَاقِ الْعَظِیمِ وَالتَّعْظِیمِ الْبَلِیغِ، قَالَہُ الطِّیبِيُّ، وَلَوْ کَانَ ہٰذَا التَّعْظِیمُ حَقِیقَۃً لِّلْقَبْرِ أَوْ لِصَاحِبِہٖ؛ لَکَفَرَ الْمُعَظِّمُ ۔۔۔ .
*”اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت ان (قبور) کی طرف رخ نہ کرو، کیونکہ یہ تعظیم میں مبالغہ آرائی ہے اور یہ حق صرف معبود کا ہے۔ ایسا شخص (غیر اللہ کے لیے) عظیم استحقاق اور حد درجہ تعظیم کو ایک ساتھ جمع کر دیتا ہے۔یہ بات علامہ طیبی نے کہی ہے۔اگر یہ تعظیم واقعی قبر اور صاحب ِ قبر کے لیے کی جائے،تو ایسا کرنے والا کافر ہو جاتا ہے۔”*

(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 372/2)

*علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ (وفات:981 ھ)* کہتے ہیں:

*جو شخص زیارتِ قبور سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی اور صحابہ و تابعین کے عمل کا موازنہ آج کل کے اکثر لوگوں کے عمل سے کرے گا،وہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے اس قدر مخالف پائے گا کہ یہ دونوں کبھی اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ان کے پاس نماز پڑھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا ،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں قبروں پر مسجدیں بنا کر انہیں مزاروں کا نام دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا ہے،جبکہ یہ لوگ مخالفت میں چراغ اور موم بتیاں جلاتے ہیں اور اس سلسلے میں رقم جمع کرنے کے لیے اوقاف قائم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں انہیں گھروں کی طرح بلند وبالا بناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں انہیں پکا کرتے اور ان پر قبے بناتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ان پر قرآن وغیرہ کی لکھی ہوئی تختیاں لگاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر اضافی مٹی ڈالنے سے منع فرمایا، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اضافی مٹی کے ساتھ ساتھ پکی اینٹیں،پتھر اور سیمنٹ بھی لگاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو میلہ گاہ اور مزار بنانے سے روکا، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے میلہ گاہ بناتے ہیں اور ان پر عید وغیرہ سے بڑھ کر اجتماعات کرتے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہ ہر اس بات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں،جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا یا جس سے روکا۔یوں یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے دشمنی کماتے ہیں۔”*
(زیارۃ القبور، ص : 15)

*علامہ محمود بن عبد اللہ آلوسی حنفی(1270-1217ھ) فرماتے ہیں :*

’’فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا}(الحجّ 22 : 73) (بلاشبہ جن کو [اے مشرکو] تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے)۔ *اس آیت ِکریمہ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے، جو اولیاء اللہ کے بارے میں غلوّ کا شکار ہو گئے ہیں۔وہ اللہ تعالیٰ سے غافل ہو کر مصیبت میں ان اولیاء سے مدد طلب کرتے ہیں اور ان کے نام پر نذر و نیاز دیتے ہیں۔ان میں سے ’دانشور‘ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اولیاء تو ہمارے لیے اللہ کی طرف وسیلہ ہیں اور یہ نذر و نیاز تو ہم اللہ کے لیے دیتے ہیں، البتہ اس کا ثواب اس ولی کو پہنچاتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اپنے پہلے دعوے میں بالکل ان بت پرستوں جیسے ہیں جو کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں۔رہا دوسرا دعویٰ تو اس میں کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ بزرگوں سے اپنے مریضوں کے لیے شفاء اور غائب ہونے والوں کی واپسی وغیرہ کا مطالبہ نہ کرتے[حالانکہ شرعاً یہ بھی ناجائز ہے۔ناقل]۔ان کی حالت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بزرگوں سے مانگنے کے لیے ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔ اگر ان سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی نذر و نیاز دو اور اس کا ثواب (اولیاء) کی بجائے اپنے والدین کو پہنچاؤ، کیونکہ تمہارے والدین ان اولیاء سے بڑھ کر ثواب کے محتاج ہیں،تو یہ مشرکین ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، [اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا مقصد بزرگوں سے مانگنا ہی ہوتا ہے]۔میں نے بہت سے مشرکین کو دیکھا ہے کہ اولیاء کی قبروں کے پتھروں پر سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض مشرکین تو سب اولیاء کے لیے ان کی قبروں میں تصرف (قدرت) بھی ثابت کرتے ہیں، البتہ مراتب کے اعتبار سے یہ تصرف مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ان مشرکین کے ’اہل علم‘ قبروں میں اولیاء کے لیے چار یا پانچ قسم کا تصرف ثابت کرتے ہیں، لیکن جب ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ چیز کشف سے ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ ان کو تباہ و برباد کرے، یہ کتنے جاہل اور جھوٹے لوگ ہیں! ان میں سے بعض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیاء اپنی قبروں سے نکلتے ہیں اور مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں،جبکہ ان کے ’اہل علم‘ کا کہنا ہے کہ اولیاء کی صرف روحیں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جاتی ہیں۔ان کے بقول بسا اوقات اولیاء کی روحیں شیر، ہرن وغیرہ کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں، کتاب و سنت اور اسلاف ِامت کے کلام میں ان کا کوئی ثبوت نہیں۔ان مشرکین نے (سادہ لوح) لوگوں کا دین بھی برباد کر دیا ہے۔ ایسے لوگ یہود و نصاریٰ ،دیگر ادیانِ باطلہ کے پیروکاروں اور بے دین لوگوں کے سامنے مذاق بن گئے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے (دین و دنیا کی ) عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔‘‘*

(روح المعاني : 213-212/2)

بریلویوں کے ممدوح ابنِ حجر ہیتمی (٩٠٩۔٩٧٤ھ) لکھتے ہیں :
*”بڑے بڑے حرام کاموں اور شرک کے اسباب میں سے یہ ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھی جائے ، ان کو مسجد بنا لیا جائے یا ان پرعمارت بنائی جائے۔کراہت کا قول کسی اور بات (حرمت )پرمحمول ہے ، کیونکہ علمائے کرام کے بارے میں یہ گمان نہیں کیاجاسکتا کہ وہ ایسے فعل کو جائز قراردیں ، جس کے کرنے والے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت تواتر کے ساتھ ثابت ہو۔ان کوگرانا واجب ہے ، اسی طرح ان قبوں کو بھی گرانا ضروری ہے جو قبروں پر بنائے گئے ہیں، کیونکہ یہ مسجد ِ ضرار سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔ ان کی بنیاد رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پرہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور اونچی قبروں کو گرانے کا حکم فرمایا ہے۔ اسی طرح قبر پر موجود ہر قندیل اور ہرچراغ کو ہٹانا بھی واجب ہے۔ قبرپر وقف ونذر صحیح نہیں۔۔۔”*

(الزواجر عن اقتراف الکبائر لابن حجر الہیتمی : ١/١٢٠۔١٢١)

  امام شافعی رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٠٤ھ)فرماتے ہیں : *”میں ناپسند کرتا ہوں کہ مخلوق کی اتنی تعظیم کی جائے کہ اس کی قبر کو مسجد بنا دیا جائے۔ خدشہ ہے کہ بنانے والا اور اس کے بعد والے لوگ (شرک کے) فتنے میں مبتلا ہوجائیںگے۔”*

(کتاب الام للشافعی : ١/٢٧٨)

مصادر:
mazameen.ahlesunnatpk.com
forum.mohaddis.com